شمیؔم ہاشمی
فضا میں تیرتے رہتے ہو تم خبر کی طرح
میں اک کنارے پڑا ہوں شکسۃ پر کی طرح
چہل پہل نہیں کوئ نہ زندگی کا نشاں
مرا وجود ہے تنہا اداس گر کی طرح
امیر شہر نے شک کی نگاہ سے دیکھا
غریب شہر ہے ہمراہ ہمسفر کی طرح
تو ایک منزل موہوم جستجو میں تری
مرا وجود ہے سنسان رہگزر کی طرح
ہر ایک لمحہ ہر اک پل بکھر رہا ہے وجود
خزاں کی دھوپ میں جھڑتے ہوۓ شجر کی طرح
وہ ایک لفظ سراپا ہے رات کی صورت
ہم ایک معنئ بےپردہ ہیں سحرکی طرح
تمہیں کہو کہ تمہیں لوگ کیا کہیں گے شمیؔم
خبر کی دنیا میں رہتے ہو بےخبر کی طرح
***************