* انا وہ شاخ ہے جو جھک نہیں سکتی جھکا *
انا وہ شاخ ہے جو جھک نہیں سکتی جھکانے سے
یہ ممکن ہے کہ اک دن ٹوٹ جائے آزمانے سے
انا وہ شاخ ہے جو جھک نہیں سکتی جھکانے سے
مری بھی فکر کو جانے کہاں سے پر نکل آئے
پرندے بھر رہے تھے جب اڑانیں آشیانے سے
مرے اندر ٹراموں کا بسوں کا شور رہتا ہے
کبھی یہ دل دھڑکتا تھا کسی کے آنے جانے سے
کوئی منظر ہو اوروں کی طرح میں رونہیں سکتا
غلط مت سوچنا اے دوست میرے مسکرانے سے
یہ بہتر ہے کہ اس کی بد دعا ہیں آسماں چھولیں
کہ اب تو تنگ میں بھی آگیا ہو اس کے طعنے سے
٭٭٭
|