* صفحۂ دل پر گڑھی اس نے حکایت کیسی *
صفحۂ دل پر گڑھی اس نے حکایت کیسی
پوچھتا ہے کہ پری زاد سے رغبت کیسی
وہ جو آتی ہے کہاں ضعف بدن رہتا ہے
ناف کے نیچے سمٹ آتی ہے ہمت کیسی
حجرۂ شب کی گرہ کھولنا کتنا مشکل!
مہر جب لگ ہی چکی ہے تو یہ عجلت کیسی
راس آیا ہے مری جان کا بستر بننا
اور چہرے کی نکھر آئی ہے رنگت کیسی
رائیگاں اس نے کیا رات کے سنناٹے میں
اور اب ڈھونڈتی ہے مجھ میں حرارت کیسی؟
٭٭٭
|