* چل کر بس تھوڑی ہی دور سہم جاتا ہے *
غزل
٭………شمیم قاسمی
چل کر بس تھوڑی ہی دور سہم جاتا ہے
میرے اندر بھاگلپور سہم جاتا ہے
کہتے ہیں ہر سال دسمبر آتے ہی
جانم! اور دلِ رنجور سہم جاتا ہے
حجرۂ شب کا پہلا زینہ چڑھتے ہی
گہری تاریکی میں نور سہم جاتا ہے
’’ اچھے شہر‘‘ کا نعرہ جب بھی لگتا ہے
’’ جھونپڑ پٹی‘‘ کا مزدور سہم جاتا ہے
کابل کے حالات دھماکہ خیز ہیں اتنے
غار میں جو بھی ہے محصور سہم جاتا ہے
غیب سے اس کی خاطر ایک ند آتی ہے
خوف سے پھر تو کوہِ طور سہم جاتا ہے
٭٭٭٭
|