* بدن کو خاک کہاں ڈھیروں پھول کرتا ہ *
غزل
٭………شمیم قاسمی
بدن کو خاک کہاں ڈھیروں پھول کرتا ہے
کہ بے سبب ہی وہ قصے کو طول کرتا ہے
وہ روندتا ہے سلیقے سے خواب زاروں کو
کوئی بھی کام ہو وہ با اصول کرتا ہے
کہ آہٹوں پہ ہی بس جال پھینک دیتا ہے
مری اڑان کو وہ کب قبول کرتا ہے
یہ بھولئے کہ اسے کالی رات نے لوٹا!
یہ سوچئے کہ اسے دن قبول کرتا ہے؟
جنوں کے آئینہ خانوں کو جگمگا تا ہے
پھر اپنے ہاتھوں ہی وہ دھول کرتا ہے
یوں کائنات کا ہر جبرجھیل لیتا ہے
بس اپنا پھول سا چہرہ ببول کرتا ہے
الگ یہ بات کہ اک شب میں بیٹھ جاتی ہے
وہ ٹھیک ٹھاک بدن کیا بھی چول کرتا ہے
٭٭٭٭
|