* ہوتی ہے کہاں مصرعہء تمثال کی آمد *
غزل
شمیم قاسمی
(خورشید اکبر کے نام)
ہوتی ہے کہاں مصرعہء تمثال کی آمد
ہوتی ہے تو بس ہوتی ہے چنڈال کی آمد
مت پوچھئے کس چھور پہ ہو ذہنی تموّج
معلوم ہے دو شیزہء بنگال کی آمد
اک خواہش بے نام نے سرشار کیا ہے
ہے دل کے پلیٹ فارم پہ انڈال* کی آمد
دانش کا تقاضہ ہے کہ جذبوں سے رہوں دور
یہ شعروادب جی کے ہے جنجال کی آمد
مہکی جو صبا، سانسوں کی یوں آمدو شد میں
محسوس ہوئی اس کی سبک چال کی آمد
اب سال کے دن جتنے ہوں بس خیر طلب ہوں
ہرسال مبارک ہونئے سال کی آمد
***** |