* بالکونی پہ طبیعت نہیں لگتی ہے اب *
شمیم قاسمی
بالکونی پہ طبیعت نہیں لگتی ہے اب
ہمہمہ ختم ہے، ویران سی کھڑکی ہے اب
بھولی بسری ہوئی یادوں کے گھنے جنگل میں
جگنوئوں سی تری پیشانی چمکتی ہے اب
بند ہوتے ہوئے بازار سے ہوکر گزرے
’’قیمتی چیز‘‘ بھی دو کوڑی میں بکتی ہے اب
خلوتِ خاص میں اک شخص کا آنا کیا ہے
ہے سخی رات مگر جیب تو خالی ہے اب
یعنی جس ہاتھ سے جی بھر کے لُٹائی دولت
بس وہی ہاتھ مری جان سوالی ہے اب
YY
|