* تھوڑی سی حرات ہے جو مرحوم کے اندر *
شمیم قاسمی
تھوڑی سی حرات ہے جو مرحوم کے اندر
خواہش کوئی گردش میں ہے حلقوم کے اندر
اب ہجر میں اے جان پھسلنے کا مزہ چکھ
کائی سی جمی ہے دلِ مغموم کے اندر
گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے شب وروز
ہے چہرہ جو اس چہرۂ معصوم کے اندر
وہ نشۂ مئے سے بھی سوا لگتی ہے مجھ کو
جانم نے ملایا ہے جو پرفیوم کے اندر
دہلیز کے باہر تو بلاوے کی مہک تھی
سو آگیا چوکھٹ کو تری چوم کے اندر
YY
|