* زمانے میں نہیں ہوتا ہے ہر بشر محتا *
ض
شمیم قاسمی
زمانے میں نہیں ہوتا ہے ہر بشر محتاج
در حبیب پہ ہو جاتا ہے مگر محتاج
وہ ہمسفر ہو مرا خواب رنگ موسم میں
اڑان بھرنے کو پھر کیوں ہو بال و پر محتاج
خدا نے حسن کی دولت سے مالامال کیا
کسی بھی زاویے سے کب ہے ہمسفر محتاج
وہ ایک چہرہ کبھی مرکزِ نگاہ تو ہو
تو پھر سفر میں رہے کیوں مری نظر محتاج
میں با ادب تھا سرہانے کہ جان سوئی تھی
رہا اشارۂ ابرو کا رات بھر محتاج
یہاں وہاں نہیں جھکتا مگر یہی سچ ہے
کہ سنگِ در کا ترے ہے، مرا یہ سر محتاج
YY
|