donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Shams Iftekhari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* شمس افتخاری کی رباعی گوئی *
شمس افتخاری کی رباعی گوئی

	رباعی گوئی سب کے بس کی بات نہیں ہے۔ عمومی خیال ہے کہ ’’رباعی‘‘ ایک مشکل ترین صنفِ سخن ہے۔ اساتذۂ فن میں سے کئی ایک نے اسے مقدس پتھر سمجھ کر چوما اور پھر چھوڑ دیا اس پر طبع آزمائی کرنے کی سعی نہیں کی۔ شاعر مشرق نے بھی ’’رباعیات‘‘ کہیں جنہیںناقدینِ فن نے قطعات سے تعبیر کیا اور ثابت بھی کیا۔ ڈاکٹر طلحہ رضوی برق نے تحقیق کی اور کہا ’’تمام تر سرمایۂ اقبال میں ایک بھی رباعی موجود نہیں ہے … ‘‘ یہ اور بات کہ بعد میں محترم ناوک حمزہ پوری نے علامہ اقبال کے سرمایۂ سخن میں ایک دو رباعیوں کو ڈھونڈ نکالا۔ بہرنو، عہدِ حاضر میں، تازہ واردانِ بساطِ شاعری میں کئی نام ایسے ہیں جو آسانی سے رباعیاں کہہ رہے ہیں۔ ایسی رباعیاں جو ندرتِ فکر، سلاستِ زبان و لفظ اور شدتِ تاثیر سے پُر ہیں۔ مغربی بنگال میں، نسل نو میں ایسے کامیاب رباعی گو شعراء میں شمس افتخاری کا نام نمایاں ہے۔
	شمس افتخاری نہ صرف خوش فکر شاعر ہیں بلکہ کافی فطین، ذکی اور ذہین بھی ہیں۔ ہرچند کہ ان کی شاعری کی عمر 21 سال ہے تاہم انہوںنے بحیثیت شاعر اپنی شناخت قائم کرلی ہے اور اسے کافی استحکام بخشا ہے۔ موصوف تقریباً تمام اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کرتے ہیں مگر غزل اور رباعی بڑے انہماک اور شوق سے کہتے ہیں۔ نشستوں اور مشاعروں میں غزل سے پہلے 2 یا 3 رباعیاں ضرور پڑھتے ہیں۔ ان کی اثر آفریں رباعیاں، سامعین کو ’’عش عش!‘‘ کہنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر رباعیوں میں شروع کے دو مصرعے بھرتی کے ہوتے ہیں مگر یہ سقم شمس افتخاری کی رباعیوں میں شاید ملے اور ملے بھی تو مشکل سے۔ شمس افتخاری کی ہر رباعی کا چوتھا مصرعہ، شدتِ تاثر اور زورِ بیاں سے اس قدر متصف ہوتا ہے کہ سیدھے سامعین کے دل میں اتر جاتا ہے اور لبِ سامعین سے معاً اور از خود یہ فقرہ نکل پڑتا ہے۔ ’’مکرر ارشاد ہو، دوبارہ پڑھئے دوبارہ!‘‘ ان کی دو اثر آفریں رباعیاں ملاحظہ کریں:
یہ نام، القاب، یہ عہدہ کیا ہے

یہ مال، یہ جاگیر، یہ بنگلہ کیا ہے
اخلاق میں پوشیدہ ہیں جنت، دوزخ

اخلاق نہیں اچھا تو اچھا کیا ہے

٭

سر خم ہے اگر یار تو اترانا کیا

ہے مفت کی دستار تو اترانا کیا
کردار ہی پہچان ہوا کرتا ہے

گر پست ہے کردار تو اترانا کیا
	ڈاکٹر طلحہ رضوی برق فرماتے ہیں ’’رباعی وہ چار مصرعی صنفِ سخن ہے جس کے پہلے دو مصرعوں کو میں کمان کے دو بازوئوں سے تعبیر کرتا ہوں۔ تیسرے مصرع کو دونوں گوشوں سے بندھے اس تانت سے جس پر تیر رکھ کر کمان دار اپنی قوت صرف کرتا ہے اور رباعی کے چوتھے مصرع کو اس تیر سے جو سیدھا ہدف پر ترازو ہوجائے۔ اس کا معنوی پھل، اگر ندرت، معنی و شدت تاثیر کے زہر میں بجھا ہو تو کیا کہنا…‘‘ بڑی حد تک یہ تمام خوبیاں شمس افتخاری کی رباعیوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ انہیں مطالعہ کا بڑا شوق ہے۔ ان کے مشاہدات تیز ہیں اور تجربات کی آنچ بھی مدھم نہیں ہے۔ موصوف زبان و فن پر خلّاقانہ قدرت حاصل کرنے کی سعی میں منہمک ہیں تاہم اس سلسلے میں انہیں ہنوز کامیابی نہیں ملی ہے۔ میرا ایمان ہے کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی لہذا شمس افتخاری کی کامیابی، ان سے کچھ زیادہ دور نظر نہیں آتی ہے۔ شاعری کے رموز و نکات سے وہ خود کو ناواقف رکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں بھی ان کی کوشش جاری ہے۔ بحرو عروض پر بھی کسی حد تک ان کی نظر ہے۔ ان سب باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ شمس افتخاری کو رباعی کہنے کا سلیقہ آتا ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ رباعی گوئی کے ہنر سے کماحقہ واقف ہیں۔ موصوف میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کسی ایک لفظ کو اٹھاتے ہیں اور اُسے جب رباعی کا جامہ پہناتے ہیں تو وہ معمولی سا لفظ ایک تاثیر انگیز اور اثر آفریں موضوع میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ لفظ ’’دولت‘‘ پر ان کی دو رباعیاں ملاحظہ کریں، ان رباعیوں میں انہوں نے تاریخی حوالے سے ایسی خدا لگتی بات کہی ہے جس کی صداقت سے کافر بھی انکار نہیں کرسکتا اور ان کی شدتِ تاثیر اور معنی آفرینی پر جتنی بھی داد جائے وہ کم ہے:
خود ساختہ معبود بنا دیتی ہے

دراصل یہ مردود بنا دیتی ہے
کہتے ہیںجسے دہر میں دولت یارو!

انسان کو نمرود بنا دیتی ہے

٭

گرتی ہوئی فرعونی حکومت دیکھی

مٹتی ہوئی شداد کی جنت دیکھی
اے صاحبِ زر تیری حقیقت کیا ہے

لٹتی ہوئی قارون کی دولت دیکھی
	شمس افتخاری کی مشاقی اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ موصوف نے رباعی کے مروجہ 24 اوزان کو 9 رباعیوں میں برتا ہے اور یہ کارِ دارد ہے، بچوں کا کھیل نہیں۔ مجھے امید ہے کہ ایام آئندہ میں میدانِ رباعی گوئی میں شمس افتخاری اپنی مثال آپ ہوں گے۔
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 294