* عالم کے دوستوں میں مروّت نہیں رہی *
غزل
٭………سراج اورنگ آبادی
عالم کے دوستوں میں مروّت نہیں رہی
شرم و حیا مہرو شفقت نہیں رہی
ظاہر میں کیا رفیق کہاتے ہیں آپ کو
لیکن انوں کے دل میں محبت نہیں رہی
ملتے ہیں راستے میں جو کوئی کج نظر ملے
خوابوں میں پاک باز کی حرمت نہیں رہی
ہر خارِ بو الہوس کی کئے صحبت اختیار
تو حسنِ گل رُخوں میں لطافت نہیں رہی
بھولے ہیں ہر صنم کے کرشمے پہ ہوش کوں
ان زاہدوں میں کشف و کرامت نہیں رہی
مت ہو بہارِ گلشنِ دنیا کا عندلیب
اس پھول بن میں بوئے رفاقت نہیں رہی
اب ذاتِ حق بغیر نہ رکھ دوستی سراجؔ
عالم میں آشنائی و الفت نہیں رہی
|