* دھوپ کی اوڑھنی کو اوڑھے ہوئے *
کہمن
سہیل غازی پوری
سورج
منظر:
دھوپ کی اوڑھنی کو اوڑھے ہوئے
گھر سے سورج نکل کر آیا ہے
مارچ اپریل کے مہینے میں
کیسا چولا بدل کر آیا ہے
ظلمتِ شب کی تلخ باتوں سے
صبح کے دل گذار لمحوں کے
سینو ں پہ مونگ دَ ل کر آیا ہے
کہمن:
ہے ہر اک شے زوال کی زد پر
اس پہ بھی اک زوال آئے گا
وقت کے بیکراں سمندر میں
شام ہوتے ہی ڈوب جائے گا
٭٭٭
|