* کِس قدر تھے پیکرِ مہرو وفا بستی کے *
کِس قدر تھے پیکرِ مہرو وفا بستی کے لوگ
اجنبی کیوں ہو گئے میرے خدا بستی کے لوگ
بات بس اتنی سی ہے میں رات کو کہتا تھا رات
زندگی بھر ہی رہے مجھ سے خفا بستی کے لوگ
سوہنی کا ذِکر آتا ہی نہیں تاریخ میں
گر نہیں دیتے اُسے کچا گھڑا بستی کے لوگ
پُوچھا اِک معصوم سے گھر پھُونکنے والے تھے کون
ڈرتے ڈرتے اُس فرشتے نے کہا بستی کے لوگ
شہرِ جاں میں خیمہ زن تھا ہر طرف خوف و ہراس
کیسے دیتے پھر کسی کو راستہ بستی کے لوگ
وہ بھی کیا دن تھے کہ ثاقبؔ خیر مقدم کے لیے
بڑھ کے آجاتے تھے بستی سے ذرا بستی کے لوگ
***** |