غزلِ
سُرُور بارہ بنکوی
زندگی میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت
اس لئے شاید گنوایا ہم نے کم، پایا بہت
راندہِ ہر فصلِ گُل ہم کب نہ تھے، جو اب ہوئے
سُنتے ہیں یاروں کو یہ موسم بھی راس آیا بہت
وہ قریب آنا بھی چاہے اور گُریزاں بھی رہے
اُسکا یہ پِندارِ محبُوبی مُجھے بھایا بہت
کِتنی یادیں، کِتنے منظر آبدِیدہ ہوگئے
جب بھی تنہا آئینہ دیکھا، وہ یاد آیا بہت
سُرُوربارہ بنکوی