غزل
کچھ تو ضرور ندرت دیکھی تری ہنسی میں
فرق آگیا ہے بلکل پھولوں کی تازگی میں
تفہیم و تجزیہ کی طاقت کہاں کسی میں
ساتوں سروں کے نغمے ہیں دل کی بانسری میں
غم میں بھی مسکرائے روئے بھی ہیں ہنسی میں
’’ایسا بھی اک زمانہ گذرا ہے زندگی میں‘‘
اس درجہ گر گیا ہے معراجِ رہنمائی
چلنا پڑیگا شاید خود اپنی رہبری میں
ہر آدمی پڑا ہے ہر آدمی کے پیچھے
کیسا مقابلہ ہے میدانِ زندگی میں
اندھوں کو بھی ہے لازم نکلیںچراغ لیکر
ٹھوکر کوئی لگا دے انکو نہ تیرگی میں
کہنا نہ تھا جو ہر گز ہم اُن سے کہ گئے ہیں
کچھ رو میں بے خودی کے کچھ دل کی بے کلی میں
آنکھوں کو اپنی کھولیں حالات اپنے بدلیں
ہم لوگ آگئے ہیں اکیسوی صدی میں
لکھے اے سہیلؔ ایسی غزلیں کے دل میں اترے
اہلِ نظر نہ پھینکیں ردی کی ٹوکری میں
سہیلؔ فاروقی Suhail Farooqui
**************