غزل سہیلؔ فاروقی
متاعِ غائبانہ ڈھونڈھتے ہیں
کھنڈ ر میں وہ خزانہ ڈھونڈھتے ہیں
لئے ارماں کی ہم خالی انگوٹھی
کوئی موتی کا دانہ ڈھونڈھتے ہیں
کبھی بچوں کو مکتب ڈھونڈھتا تھا
اب اہلِ کار خانہ ڈھونڈھتے ہیں
مرے قصے میں ہیں کچھ لفظ گونگے
جو مفہوم فسا نہ ڈھونڈھتے ہیں
کہاں انسانیت جاکر بسی ہے
اُسے ہم خانہ خانہ ڈھونڈھتے ہیں
نئی تہذیب کے مارے ہوئے لوگ
گپھائوں میں ٹھکانہ ڈھونڈھتے ہیں
سنورنا بھی جنہیں آیا نہیں ہے
مگر آیئنہ خانہ ڈھونڈھتے ہیں
جہاں سہیلؔ اپنا سر جھکا دے
ہم ایسا آشیانہ ڈھونڈھتے ہیں
٭٭٭