* ہم کو کبھی وہاں سے تعلق نہیں رہا *
غزل
سہیلؔ فاروقی
ہم کو کبھی وہاں سے تعلق نہیں رہا
جس شہر کو اذاں سے تعلق نہیں رہا
مارا پھرا وہ تنکے کی صورت ادھر اُدھر
جس تیر کا کماں سے تعلق نہیں رہا
ممکن ہے روند ڈالیں سمندر کو کشتیاں
اب اُنکا بادباں سے تعلق نہیں رہا
گلیاں وہاں کی مجھکو کبھی تو پکارتیں
جس شہرِ مہوشاں سے تعلق نہیں رہا
وہ تو سلگ رہی ہے دلِ بیقرار میں
جس آگ کا دھواں سے تعلق نہیں رہا
انسان کا جدید کہانی کی شوق میں
ماضی کی داستاں سے تعلق نہیں رہا
اتنا زمیں کی گود میں آرام مل گیا
بے رحم آسماں سے تعلق نہیں رہا
ہم نے سخن کو پھول کا زیور بنا دیا
ابہام و چیستاں سے تعلق نہیں رہا
٭٭٭
|