* نہ جب تک فیض حاصل ہو دعا کا *
غزل
نہ جب تک فیض حاصل ہو دعا کا
اثر ہوتا نہیں کچھ بھی دوا کا
جلایا ہے دیا اپنی وفا کا
کہ دیکھیں تو ذرا دم خم ہوا کا
یہ خاکہ ہے ترے شہرے جفا کا
سلگتے گھر ، لہو ، نعرے ، دھماکا
ہمارے گھر پہ دستک کون دے گا
یہ جھونکا ہوگا آوارہ ہوا کا
یونہی دنیا بنائی تو نہ ہوگی
یقینا ہوگا کچھ مقصد خدا کا
پڑے گا چھیننا حق غاصیبوں سے
زمانہ اب نہیں ہے التجا کا
ترا آئینہ سچ بولے گا کیسے
یہ ہے ڈھالا ہوا دورِ ریا کا
چراغاں پر چراغاں کر رہا ہوں
اندھیرا کم نہیں ہوتا فضا کا
ضرورت کب خدا جانے مرے گی
کہ بھرتا ہی نہیں کاسہ گدا کا
مرے یارب بڑا گہرا تعلق
تری رحمت سے ہے مری خطا کا
اٹھاتا ہاتھ ہوں اُس کے لئے بھی
نہیں جو مستحق مری دعا کا
جسے آہیں سمجھ بیٹھی ہے دنیا
وہ نغمہ ہے سہیلِ بے نوا کا
………………………………
|