بے چاری بیٹیاں
ثریا پروین
کیسے سپرد خاک کرے وہ اپنی زندگانیاں
بنا بٹھائے ڈولی میں اپنی پیاری بیٹیاں
دیکھتے دیکھتے عمر جوانی بھی کٹ گئی
باپ کی دہلیز پر بیٹھی کتنی بیٹیاں
نہ تھاما کسی نے ہاتھ نہ آنسو ہی پونچھے
کیونکہ مفلسی میں پلی تھیں بیچاری بیٹیاں
ایک بھی تمنائوں کے پھول انکے نہ کھل سکے
کتنے ارمان سجائے بیٹھی تھی بے چاری بیٹیاں
فرشتہ اجل انہیںبھی ساتھ نہ لے جائیں
جو کہلا رہی ہیں باپ کی بیچاری بیٹیاں
رو رہے ہیں وہ لپٹ کر بیٹیوں کے جنازے سے
جو چلتا تھا فخر سے لئے عزت کی گٹھریاں
عورت کو کیوں نہیں ملی ہیں اتنی آزادیاں
کہ محنت کے درپہ اتار پھینکیے مفلسی کی ہتھکڑیاں
*****************