سید شاہ نعیم الدین نعیمی
لبریز اک ترنگ سے اگر دل کا ہو ایاغ
اک دشتِ ریگزار بھی ہے پُر بہار باغ
میرے لباسِ فاخرہ میں چھُپ گۂ عیوب
ورنہ تھی لغزشوں سے مری روح داغ داغ
تم تھے نہ ساتھ ساتھ تو گھپ راستہ رہا
ہاتھوں میں جبکہ تھا مرے جلتا ہوا چراغ
حد بقا سے پار ہوے جوں ہی یہ قدم
دنیا کو پھر خبر ہی ملی نہ مر ا سراغ
جب دل کا کام ہے کہ فقط خوں رواں رکھے
پھر دل نہیں خیال کا مخزن ‘ وہ ہے دماغ
اس شہرِ آرزو میں ہوا واقعہ بھی یوں
گلشن میں شاخ شاخ پہ بیٹھے ہوے ہیں زاغ
جہدِ غمِ حیات ہے او ر فکر ِ ماوریٰ
انسان کو نہیں ہے میسّر کبھی فراغ
ایسا ہو تیل ‘ ایسی ہو لو ‘ پھر نہ بچھ سکے
تم ہی جلاو کوئ نعیمی نیا چراغ
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸