* ظلمت ہے بے پناہ مگر جانتے ہیں ہم *
غزل
ظلمت ہے بے پناہ مگر جانتے ہیں ہم
اس رات کی بھی ہوگی سحر جانتے ہیں ہم
’’لفظوں سے کھیلنے کا ہنر جانتے ہیں ہم‘‘
پر شاعری ہے کارِ دگر جانتے ہیں ہم
حصے میں جب سے آیا ہے سوزِ غمِ حیات
ہوتا ہے کیسا دردِ جگر جانتے ہیں ہم
چلنے لگے تو ماں کی دعا لے لی اپنے ساتھ
ہر سمت پُرخطر ہے ڈگر جانتے ہیں ہم
مانا تری نگاہ میں قیمت نہیں مگر
اشکوں کو اپنے لعل و گہر جانتے ہیں ہم
قائم ہے دوستوں سے محبت کا سلسلہ
انجام دوستی کا مگر جانتے ہیں ہم
طالب! نہیں ہے کوئی ٹھکانہ تو کیا ہوا
ٹھہرے ہیں جس جگہ ، اُسے گھر جانتے ہیں ہم
طالب صدیقی
45 Rabindra Sarani
Kolkata-700073
Mob: 9830513534
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|