* امتحاں ہر موڑ پر ہے دیکھئے ہوتا ہے *
غزل
امتحاں ہر موڑ پر ہے دیکھئے ہوتا ہے کیا
کالے کوسوں کا سفر ہے دیکھئے ہوتا ہے کیا
با حفاظت شہرِ قاتل سے تو بچ نکلے سبھی
دار پر اب میرا سر ہے دیکھئے ہوتا ہے کیا
لے نہ ڈوبے میری کشتی کو کہیں موجِ بلا
فکر یہ شام و سحر ہے دیکھئے ہوتا ہے کیا
اک تماشا مفلسی کا ہم دکھانے آئے ہیں
ویسے یہ تو شہرِ زر ہے دیکھئے ہوتا ہے کیا
دھوپ میں چلنا پڑا ہے چھائوں کی امید میں
راہ میں بوڑھا شجر ہے دیکھئے ہوتا ہے کیا
گل کی بربادی سے غافل کوئی بلبل تو نہیں
باغباں ہی بے خبر ہے دیکھئے ہوتا ہے کیا
پیش تو اپنی غزل طالب نے کردی ہے مگر
محفلِ اہلِ نظر ہے دیکھئے ہوتا ہے کیا
طالب صدیقی
45 Rabindra Sarani
Kolkata-700073
Mob: 9830513534
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|