* سچ ہے چہرے پہ نہیں غم نشیں منظر کوئ *
غزل
سچ ہے چہرے پہ نہیں غم نشیں منظر کوئی
جھانک کر دیکھے مری آنکھوں کے اندر کوئی
کاش ایسا بھی تو ہو مجھ سے لپٹ کر روئے
غم زدہ اپنی طرح مجھ کو سمجھ کر کوئی
خون کے دھبوں پہ قدموں کے نشاں شاہد ہیں
ظلم کا گزرا ہے اس راہ سے لشکر کوئی
میں اُسی زلف سے جان اپنی چھڑاکر آیا
جس کے کاٹے کو لگے پانی نہ منتر کوئی
یہ ابھی کچھ ہیں ، ابھی کچھ ، تو ابھی کچھ تنویر
’’آدمی زادوں کا ہوتا نہیں پیکر کوئی‘‘
تنویر صہبائی
57, Topsia Road, Sanp Gachhi
Kolkata-700039
Mob: 9903380822
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|