* ہم سے آشفتہ مزاجوں کا پتہ پوچھتی ہ *
غزل
ہم سے آشفتہ مزاجوں کا پتہ پوچھتی ہے
کتنے باقی ہیں دیے روز ہوا پوچھتی ہے
روز کلیوں کو کھلاتے ہوئے کرتی ہے سوال
کس کے دامن کی مہک ہے یہ صبا پوچھتی ہے
کس جگہ تجھ کو ٹھہرنا ہے تمنائے جہاں
لڑکھڑاتے ہوئے یہ لغزشِ پا پوچھتی ہے
تشنگی اور ہے صحرائے تمنا کتنی
جو برستی نہیں کھل کے وہ گھٹا پوچھتی ہے
رقص کرتے ہوئے ذرّوں سے صدا آتی ہے
گرد ہوتے ہوئے انجام مرا پوچھتی ہے
گردشِ وقت مہربان ہے اتنی مجھ پر
کوئی پوچھے نہیں یہ حد سے سوا پوچھتی ہے
تسنیم عابدیؔ
P.O.Box-2035
Abu Zahbi
(U.A.E)
M: 00971503127005
0097126330817
tasnim-61@hotmail.com
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|