* غیرت - عشق میں ڈوبی ہوئی للکار کی خی *
غیرت - عشق میں ڈوبی ہوئی للکار کی خیر
اور زمانے کے بدلتے ہوے اتوار کی خیر
یہ تجلی تو فقط اہل-ا-نظر دیکھتے ہیں
نور کی دھاری سے لپٹے ہے انوار کی خیر
ہم تو وہ اہل-محبّت کہ نہ غیروں سے عناد
مانگتے رہتے ہیں اس یار سے اغیار کی خیر
تیرے ہر سوچ زمانے سے نرالی ہی سہی
مانگنی پھر بھی ہے اس سے ترے افکار کی خیر
نیی تہذیب نے کچلی ہیں پرانی قدریں
کیسا اچھا وہ زمانہ تھا ان اقدار کی خیر
جان چاہے نہ رہے ،نام ترا ساتھ رہے
میرے شاہ رگ میں سماے ہوے اقرار کی خیر
جو ترے پاس ہیں وہ یاد بہت آتے ہیں
آج مانگی ہے تبھی تو دل-بیمار کی خیر
میں تو گلھاے عقیدت سے سجاتی ہوں اسے
میرے مسکن مرے محور ،درو دیوار کی خیر
چند خود غرض عناصر نے اسے گھیر لیا
قوم کے سہمے سسکتے ہوے معمار کی خیر
تجھے تف نامہ مبارک ، ترے تف نامے پے تف
اور جو عشق-ا-الہی میں ہیں ڈوبے سبھی اشعار کی خیر
******** |