* ہم نے عمر کھو دی ہے تجھ سا اور پانے *
ہم نے عمر کھو دی ہے تجھ سا اور پانے میں
دوسرا نہیں دیکھا تم سا پر زمانے میں
تاک میں وہ بیٹھے تھے گھات اک لگانے میں
ہم لگے رہے اکثر باہر گھر سے جانے میں
ان کی بلا سے کوئی گر مرا خبر تو گرم تھی
سب رہے مصروف -کار سرخیاں لگانے میں
زنجیر -عدل شہر میں یوں تو ہے لگی ہوئی
خوف پر بلا کا ہے اس کو اب ہلانے میں
دشمنوں نے شب خوں تھا ہم پہ ایک دم مارا
جب کہ تھے مشغول ہم کشتیاں جلانے میں
رات برات اتری تھی شمع پر پتنگوں کی
اور سرور میں تھے وہ خود کو ہی جلانے میں
میں کسی محل میں بھی جا کے خوش نہیں رہتی
جانے کیا تقدس ہے میرے گھر پرانے میں
تم نے ہم سے جان مانگی ہم نے خوشدلی سے دی
تم نے ہم کو کھو دیا صرف آزمانے میں
تم نہ آ سکے ملنے یہ گلہ نہیں مجھ کو
جھوٹ کس قدر بولے تم نے اک بہانے میں
دل جگر گنوا بیٹھے ،چین نیند کھو بیٹھے
کسقدر خسارہ ہے یاں پہ جی لگانے میں
چاندنی اتر آئ اب تو مرے سر پر بھی
عمر ہم بتا بیٹھے عہد اک نبھانے میں
آج دیکھ کر اس کو سارے زخم تازہ ہیں
عمر اک لگائی تھی شخص وہ بھلانے میں
وقت کا تھا جو کنکر اس نے توڑ ڈالا سب
ہم لگے رہے گھر کو آئنہ بنانے میں
درد کی لہر اٹھی تو جوے خوں بھی رک گیی
رات مر گئے انجم داستاں سنانے میں
****** |