* گردش ماہ و سال باقی ہے *
گردش ماہ و سال باقی ہے
اس پہ اس کا خیال باقی ہے
وہ تو شاید نہیں رہا لیکن
اب بھی اس کا خیال باقی ہے
ہجر کی بے قرار راتوں میں
آرزوے وصال باقی ہے
اس کے حُسن - کمال کا اب تک
ایک دھندلا خیال باقی ہے
دوستوں پر عنایتیں بس کر
دشمنوں کا سوال باقی ہے
تیرے جانے کا غم نہیں جاتا
میرے دل کا ملال باقی ہے
اس کے جانے کا غم نہ کر پیارے
حُسن وہ لازوال باقی ہے
پڑھ لیا اس نے میرے چہرے کو
اور اب عرض-حال باقی ہے
ہاتھ پھیلاے شاخ کی مانند
ایک عرض-سوال باقی ہے
چاند کے ساتھ ہوں فلک پر میں
اور انجم زوال باقی ہے
******* |