* آنکھوں میں اگر تو اشک نہ ہوں تو لف *
جو لفظ لکھوں وہ عام لکھوں ان کی تو کوئی تفسیر نہیں
آنکھوں میں اگر تو اشک نہ ہوں تو لفظوں کی تاثیر نہیں
لوگ بہت ہیں دنیا میں پر میری طرح دلگیر نہیں
اے محل کے رہنے والے کیوں اب تیری وہ تشہیر نہیں
سب اپنی زبان میں کہتے ہیں ہم ملک بدل کر رکھ دیں گے
مجھے ایسے خواب نہ دکھلاو جن کی کہ کوئی تعبیر نہیں
تو کس کی غلامی کرتا ہے یا نفس کی یا امریکا کی
یہ ملک تو ہاتھ سے نکلا ہے تجھے فکر یہ دامن گیر نہیں
ترے محلوں کے فانوس منور ہو سکتے ہیں بجلی سے
میں تاریکی میں ڈوبا ہوں مرے پاس کوئی تنویر نہیں
جب لو گرمی کی چلتی ہے تم ٹھنڈی ہوائیں لیتے ہو
سورج کے نیچے محنت کش مرے پاس کوئی جاگیر نہیں
میرا کچا گھر سیلاب میں ہی تنکوں کی طرح بہ جاے گا
جو گھر کی چھت کو سہارا دے مرے پاس وہی شہتیر نہیں
میں طالب - حق ہوں دنیا میں مجھے جھوٹ ملاوٹ سے نفرت
میں حق کے لیے گر جان دے دوں اس پہ تو کوئی تعزیر نہیں
میں محل میں جا کر کاٹ نہ دوں سر اس کا اسی شمشیر سے کہ
میرے بوسیدہ سے گھر کی بھی دیوار پہ وہ شمشیر نہیں
مرا جسم ہی ہے میرا زنداں ،مری روح ابھی آزاد نہیں
جو میری روح کو باندھ سکے ایسی تو کوئی زنجیر نہیں
تو دیکھ ذرا آئینے میرے چہرے کے خدوخال سبھی
میں عکس تری ہی ذات کا ہوں مری اپنی کوئی تصویر نہیں
****** |