* مہمیز سے پردے میں نہاں خواب ہو جی *
مہمیز سے پردے میں نہاں خواب ہو جیسے
ظاہر بھی نہیں اور عیاں خواب ہو جیسے
ہم اپنے تغافل میں جسے بھول چکے تھے
آیا وہ نظر دشمن -جاں خواب ہو جیسے
حیران تھے ہم دیکھ کے کچھ تیرا سراپا
اس پر ترا یہ وصف -بیاں خواب ہو جیسے
میں یادوں کے میلے میں بچھڑ جاؤں نہ خود سے
ہے میرے تصور پہ دھواں خواب ہو جیسے
ہے میرا یقیں ، میرا گماں خواب کی مانند
میں چھو بھی اسے پاؤں کہاں ،خواب ہو جیسے
وہ سامنے آ کر بھی مرے سامنے کب ہے
کہتی ہے نگاہوں کی زباں خواب ہو جیسے
میں تیز قدم قافلے پیچھے ہیں خراماں
سب اپنی ہیں منزل پہ رواں خواب ہو جیسے
وہ ساتھ اگرچہ تھا مرے سارے سفر میں
تھی مرے بدن میں ہی نہ جاں خواب ہو جیسے
کچھ تیرے سوا مجھ کو نظر آے بھلا کیا ؟
دیکھوں تجھے جاؤں میں کہاں خواب ہو جیسے
یہ تھا تری قدرت کا فسوں میں نے یہ جانا
دیے تھے کہ تاروں کا سماں ،خواب ہو جیسے
پھر چاندنی راتوں میں حسیں تر تھا نظارہ
انجم نے یہ دیکھا ہے جہاں خواب ہو جیسے
******* |