* حزن مت کیجیے دریا جو اتر جانا ہے *
حزن مت کیجیے دریا جو اتر جانا ہے
چاہے فرعون کا لشکر ہو ، بکھر جانا ہے
آسماں بھی ترے ہونے سے سنور جانا ہے
کہکشاں کو ترے قدموں میں بکھر جانا ہے
کوئی امید نظر آے ستارہ بن کر
راہ میں صبح کی اب جان سے گزر جانا ہے
زہر پھر زہر ہے تم صبر ذرا کر دیکھو
اک ذرا دیر میں اس کا بھی اثر جانا ہے
فخر ہے تجھ کو اگر سنگدلی کا اپنی
پھر تری بزم میں اب اشک سے تر جانا ہے
ہے یہ دنیا جو سراے تو مسافر تم ہو
ایک دن لوٹ کے تم کو بھی تو گھر جانا ہے
****** |