* بے انتہاء نہیں مگر قدرے ریا تو ہے *
بے انتہاء نہیں مگر قدرے ریا تو ہے
تسبیح سہی نہ ہاتھ میں ، لب پر duaa تو ہے
مجھ کو بھی اس کا ذائقہ حاصل ہُوا تو ہے
زمزم کا میرے منہ میں بھی چھینٹا پڑا تو ہے
در پر مرے ابھے کوئی کھٹکا ہوا تو ہے
تنہائیوں کے شہر میں دست صبا تو ہے
اس کی محبّتوں کی کوئی انتہاء نہیں
تیری ریاضتوں کی مگر انتہاء تو ہے
اب دیکھیے کہانی کا کردار کیا کرے
مدّت کے بعد پھر کوئی اچھا لگا تو ہے
دامن تہی نہیں ہے مرا دیکھیے ذرا
کانٹوں سے گر سہی ، مرا دامن بھرا تو ہے
میں ہیر سے بھی اور زیادہ ہوں بدنصیب
اس کے نصیب میں کوئی کچا گھڑا تو ہے
دہشت کی واردات کے اب سب ہیں منتظر
وہ آ گیے ہیں شہر میں ہم نے سنا تو ہے
انجم نہ آپ شمع تمنا بجھایے
تاریکیوں کے دور میں اک یہ ضیاء تو ہے
******* |