* مرحلہ دید کا تکرار تک آپہنچا ہے *
غزل
مرحلہ دید کا تکرار تک آپہنچا ہے
طور سے چل کے جنوں دار تک آپہنچا ہے
بات آپہنچی ہے اندیشہ رسوائی تک
جذبۂ دل لب اظہار تک آپہنچا ہے
شعلہ عشق جو روشن ہے مرے سینے میں
رنگ بن کر ترے رخسار تک آپہنچا ہے
نام کو بھی نہیں اب دل میں کدورت کا نشاں
آئینہ عکس رخ یار تک آپہنچا ہے
حسن مستورا سے اپنی تجلی سے نواز
ایک سایہ تری دیوار تک آپہنچا ہے
شمع نے لے لیا آغوش میں پروانے کو
جب یہ سمجھی مرے معیار تک آپہنچا ہے
ان کی سرشار نگاہوں کا تصور جیسے
مے کد ہ خود لب مے خوار تک آپہنچا ہے
اب کسے منزل جاناں پہ رسائی کا خیال
ہر قدم کو شش بیکار تک آپہنچا ہے
بر ملا کہتی ہے یہ وقت کے ماتھے کی شکن
دور یہ کیفر کر دار تک آپہنچا ہے
مطمئن قبر کی آغوش میں ایسے ہے طفیل
راہرو جیسے در یار تک آپہنچا ہے
**** |