donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Waheed Akhtar Wahid
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* روح کا امکان از وحیداخترواحد *
روح کا امکان از وحیداخترواحد


(کائنات کی وسعتوں میں ایک سرگوشی ابھرتی ہے)

روح میری جام، تو پیمانہ [ئے] تقدیر ہے

حرفِ آخِر، میرے کُل کی بس یہی تفسیر ہے


(خامشی، ایک پیہم خامشی، جس میں نہ جانے کتنے زمانے بیت جاتے ہیں۔ ۔۔ جانے کتنے زمانوں کے بعد صدا پھرابھرتی ہے۔ مگر۔۔۔ اس بار۔۔۔ قدرے بلند!)


داخلِ جنت ہوا جس دم خدا کا رازدار

روزِ اول سے فراغت پا گیا پروردگار

پیرِگردوں نے انہی لمحوں کو اندازہ کیا

روح کا برتن مِرا قسمت کے پانی سے بھرا

کر دی پانی پر معلق ایک برگِ نسترن

پیلگوں رنگت تھی جس کی، شبنمی تھا پیرہن

جب خدا نے پھول کی پتّی پہ کن کا دم کیا

اپنی حکمت کو مری تقدیر میں مدغم کیا

برگِ نازک روح کے برتن میں غوطہ زن ہوئی

آب میں گویا سنہری روشنائی گر گئی

رشنائی کا دھواں جب آب میں مدھم ہوا

اس میں یزداں نے ملایا روشنی کا ذائقہ

روشنی کا ذائقہ تقدیر میں جب حل ہوا

راز میری روح کے ساغر کا مجھ پر کھل گیا

قدرتِ کامل کا نظّارہ عجائب میں شمار

ہو رہا تھا دیدہ [ئے] آدم پہ کیا کیا آشکار

آب کے اندر معلق جو سنہری دھول تھی

روشنی سونے کے ذروں کی طرح محلول تھی

آبِ روشن سے بھرا برتن زماں کا آئینہ

حالِ فردا قید گویا پیٹ میں مادر کے تھا

آئینہ منظر نمائے ابتدائے زیست تھا

بیضہ [ئے] حوا سے آکر نطفہ [ئے] آدم ملا

قدرتِ کامل کا نظارہ تھی میری زندگی

رحمِ مادر میں حمل پیرا تھی میری زندگی

خامشی کا جال بنتا تھا خدائے عنکبوت

تحفہ [ئے] یزداں مگر تھا رحمِ مادر کا سکوت

رحمِ مادر، یعنی میرے سجدہ [ئے] اول کی جا

حالتِ سجدہ میں مجھ سے بات کرتا تھا خدا


(خدا کی آواز۔۔۔ ماں کے پیٹ کے اندر گونجتی ہے)


جسم کی تخلیق کے سارے مراحل سے گزر

اور پھر قامت سے پوری روح کے اندر اتر

جسم میں پیدا اگر کچھ روح کی تاثیر ہے

زندگی تیری فقط تقدیر ہی تقدیر ہے

ہاتھ میں اہلِ خرد کے عقل کی معراج ہے

ہر نفع درگور، پائوں میں خدا کا تاج ہے

روح فرسا آہ کتنا ہے خرد کا ماجرا

واسطے دانا کے ہو گر عقلِ کامل بے نفع

دیکھ اندر کی طرف اے صاحبِ عقلِ سلیم

روح کے پانی سے ہوجا باوضو دانا حکیم

آنکھ سے اپنی ذرا پھر دیکھنا قدرت کے رنگ

ایک رشتے میں نظر آئیں گے گل سے خار و سنگ


(شکمِ مادر میں خدائی بازگشت ختم ہوتی ہےتو کہنے والا پھر کہتا ہے)


اک نظر دوڑائی میں نے آسمانوں کی طرف

آنکھ پھر کھولی تو اندر کے جہانوں کی طرف

بارہ برجوں میں مقیّد سب ستارے تھم گئے

ایک دوجے کے تعاقب میں ہی لمحے جم گئے

دائروں میں تیرتے عالم سراسر رک گئے

شوقِ نظارہ میں ساتوں آسماں ہی جھک گئے

دیکھتی ہے آنکھ میری اک نیا ہی سلسلہ

آسماں پر روح کے دن کو چمکتا ہے خدا

روح کو جب گھیر لیتی ہے شبِ افراسیاب

دل کا سیّارہ چمکتا ہے مثالِ ماہتاب
************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 334