donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Waheed Akhtar Wahid
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* کھل گئے ہیں جب سے مجھ پہ اعلی و ارفع & *
کھل گئے ہیں جب سے مجھ پہ اعلی و ارفع کے راز
ہو گیا ہوں پیر۔ گردوں کی طرح میں بے نیاز
 
عقل نے جب کی تجسس سے شعوری واردات
کھوج ڈالا پر تجسس فکر نے بحر۔ حیات
 
بحر کی گہرائی میں کوئی صدف پارہ نہ تھا
فکر کے آتش فشاں میں ایک انگارہ نہ تھا
 
حاصل۔ سیر۔ مسلسل تھی اگرچہ مشت۔ خاک
پر اسی حاصل سے تھیں میری نگاہیں تابناک
 
جوہر۔ دائم سے پھوٹے زاویے تقدیر کے
مغز کے ریشوں میں ہیجانی تحرک کے لئے
 
 
فکر نے میری بھٹکنا چھوڑ کر افلاک میں
ایک تازہ زاویے کا بیج بویا خاک میں
 
فکر تھی خورشید اس پر تابداری کے لئے
جام۔ علم۔ ایزدی تھا آبیاری کے لئے
 
آفتاب۔ فکر نے پھیلا دیا کرنوں کا جال
خاک پر برسی شراب۔ ایزدی، پھوٹا نہال
 
جب شراب۔ ایزدی سے خاک تھی مائل بہ نم
طفل۔ نخل۔ فکر نے رکھا جوانی میں قدم
 
لکھ رہا تھا میں جہاں اپنے مقدر کی زبور
دو افق سطریں تھیں، پورا آسماں بین السطور
 
خوب دہکائے فلک نے دن کو خوابیدہ نجوم
رات کو اترا شجر پر ان ستاروں کا ہجوم
 
دے رہا تھا پیڑ اپنے جسم کو خوبی سے بل
پھوٹتے تھے پیڑ پر تاروں سے غنچے، پھول پھل
 
شکل و ماہیت میں ہر میوہ تھا گرچہ ایک سا
رنگ خوشبو ذائقے میں ایک دوجے سے جدا
 
داہنی شاخوں پہ میوہ جات جو گنجان تھے
رومی و اقبال و سعدی، حافظ و جبران تھے
 
جن کو گہری فکر سے تھی صحبت۔ ایام بھی
ٹالسٹائی، اوریانا، ہومر و خیام بھی
 
ماہتاب۔ نیم شب تھا پیڑ کے پیچھے عیاں
جھانکتا تھا جس کے پیچھے سے مچلتا آسماں
 
جس پہ ہالہ بن رہا تھا مزدکی فکری حصار
ماہ یعنی "داس کیپی تال" کا تصنیف کار
 
خاک تھی جس کی فلک کی وسعتوں میں مضطرب
آخری جرم۔ سماوی، طائر۔ لیلئے شب
 
آنکھ پروانے کی جس کی دید کی مشتاق تھی
کاروبار۔ سوز میں شمع مکمل تاک تھی
 
آسماں منظر کے آگے پردہ [ئے] تمثیل تھا
چاند اس پردے پہ جیسے روشنی کا دائرہ
 
اک مقرر وقت پہ منظر سے پردہ اٹھ گیا
آسماں دولخت ہو کر دائیں بائیں ہٹ گیا
 
دید کو میری لگا کر اجنبی حیرت کے پر
شامل۔ نظارگاں تھے اُس طرف تمثیل گر
 
دیکھتے تھے میرے نخل۔ فکر کو حیرت سے سب
منظر۔ ناظر تھا اُن کے واسطے تمثیل۔ شب
 
اک کہانی جس سے عالم اُس طرف بیدار تھا
میرا نخل۔ فکر اس کا مرکزی کردار تھا
 
میوہ جات۔ نخل۔ فکری، کس حقیقت کا گماں؟
بحر۔ حیرت میں تھا ڈوبا کاغذی سا آسماں
 
کر نہیں سکتی ہے اہل۔ آسماں کی گفتگو
آنکھ کی پتلی کا چیرا تار۔ حیرت سے رفو
 
استجاب۔ آسماں کی تھوڑی گنجائش بھی دیکھ
میرے نخل۔ فکر کے میووں کی زیبائش بھی دیکھ
 
شاخ۔ تازہ کے سرے پر دو بدو لٹکے ہوئے
سرخ و نارنجی قبا میں یہ شلر وہ گوئٹے
 
دو جہاں، دونوں سے لذت آشنائی کے لئے
آنکھ گہری چاہئے دوہری خدائی کےلئے
 
ایک کی تاثیر تھی مثل۔ تہ۔ باد۔ لطیف
کم شناسا جس سے ٹھہرا طائر۔ موج۔ کثیف
 
گوئٹے، جیسے کوئی دریا پہاڑوں میں اسیر
سینہ [ئے] سنگ۔ گراں کو چیر کر بہتی لکیر
 
تھا عمودی جس جگہ پر زاویہ[ئے] کوہ سار
شورش۔ آب۔ پریشاں بن رہی تھی آبشار
 
آب کی چادر نے تھا ڈھانپا ہوا کوہ۔ عمود
اور زانوں پر چھلکتی جھیل تھی سر بہ سجود
 
فکر کی دیوی نے جس کو ہاتھ میں رکھا ہے تھام
جھیل کا ساغر ہے اس کے واسطے رنگین جام
**************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 319