* رقصِ جنوں میں مجھ سے ہی ٹکرا نہ جائ *
رقصِ جنوں میں مجھ سے ہی ٹکرا نہ جائے دل
کوشش یہی ہے آج تو قابو میں آئے دل
چمکا ہے شیش خانہ[ئے] دل میں خدا کا عکس
دھڑکن سے کل وجود کو دھڑکا نہ جائے دل
رکھے ہوئے ہیں دیدہ[ئے] خودبیں میں دو جہاں
حیران ہوں کہ کون سی دنیا بسائے دل
پہلو خدا کا جان کر لپٹا شعور سے
ہے ماورا سمجھ سے میری انتہائے دل
کرنے گیا ہے روح کو روشن خدا چراغ
دیکھو کہ اپنے گھر میں ہی کیا کیا جلائے دل
منطق، کلام، ہوش بھی لذت پرست ہیں
بستی ہی پوری لوط کی الٹا نہ آئے دل
بھرتا ہے جب خدا مجھے اپنی شراب سے
اک بحرہ[ئے]ِ سرور میں غوطہ لگائے دل
دھڑکن کی بازگشت سے گونجا بدن تمام
تاثیر کر رہی ہے کہاں تک نوائے دل
جڑتی گئیں زمین کی پرتوں سے نسبتیں
بھٹکے ہوئے فلک کا جنوں آزمائے دل
چشمِ زدن میں ڈھانپ لے پورے وجود کو
لمحے میں بھٹکی روح کو ننگا نچائے دل
واحد عصب عصب سے کثافت کشید ہے
سارے وجود میں لہو گنگا بہائے دل
************* |