donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Waheed Akhtar Wahid
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* پی نہیں کہ لطف تھوڑی چھوڑ کر جانے م *
پی نہیں کہ لطف تھوڑی چھوڑ کر جانے میں ہے
آخری قطرہ ابھی تک میرے پیمانے میں ہے
 
آخری قطرہ کہ جس میں ہے اثر میرا کمال
لذتِ بادہ کشی پر ضبط کے تاروں کی چال
 
داستاں سادہ تھی اس میں رنگ مرجینا کا تھا
آخری قطرے سے نم ساغر میں کچھ مینا کا تھا
 
دیکھتی ہے آنکھ جب بھی آسمانی سلسلے
فکر کرتی ہے مرتب زندگی کے زاوئے
 
مطربا! میں وجد میں ہوں، نغمہِ داؤد چھیڑ
جس سے ہو مسحور فرشِ عرش پر معبود، چھیڑ
 
چاند کو طبلہ بنا، تاروں کو پائیل میں پرو
کہکشاں تھرکا، یہ تھرکت مست پائیل میں سمو
 
جزویاتِ جوہری ہیں خواہشِ وجدان میں
وجد آنے دے ذرا اس جوہری سامان میں
 
مطربا! لمحہ بہ لمحہ تیز کر طبلے کی تھاپ
اٹھ رہی ہے دیکھ جوہر کی تہوں اندر سے بھاپ
 
مست کر طبلے کی دھڑکن، روشنی کے سر نکال
ڈالنے دے ان سروں کو راگ کے اندر دھمال
 
سُر ابھرتے راگ میں جب گونج تک آجائے گا
رقصِ اجرامِ سماوی کہکشاں تھرکائے گا
 
گونج سُر کی بن رہی ہے سائبانِ موجِ صوت
ہست جاں، ہستم مکاں، مستم زمانِ موجِ صوت
 
مطربا! جوہر کی پرتیں حلقہِ داؤد ہیں
جزو باہر سب طوافی، مرکزی مسجود ہیں
 
یہ اکائی جس پہ طاری جذب ہے منصور کا
ہے تدبر یلدرم کی چال میں تیمور کا
 
عقل کی بالیدگی سے فکر گر مانوس ہے
پیکرِ فکری سراپا جوہری فانوس ہے
 
فکرِ پارس گر سے پارس کیمیا ہونے کو ہے
روح تیری زندگی سے آشنا ہونے کو ہے
 
معجزوں میں تازہ کاری، سنتِ پروردگار
فکر کے اجزائے لایُنفک میں ہوتی ہے شمار
 
آنکھ نے دیکھا نہیں جو، وہ ابھی پردے میں ہے
منظرِ امکان کی سب روشنی پردے میں ہے
 
مطربا! بربط کا ہر اک تار ہی الہام ہے
جس کو بھی مضراب چھولے، حشر کا سامان ہے
 
مطربا یہ سُر نہیں ہیں، نبض کی رفتار ہے
کھینچتا ہے تو جسے وہ زندگی کا تار ہے
 
کر سُروں کے دائرے سے خام ذہنوں کو محیط
روشنی سے، تال سے بیمار نسلوں کو محیط
 
تیری پیدائش سے تیری ہم سفر ہے زندگی
تیرے رگ پٹھے میں ’’ہونے‘‘ کی خبر ہے زندگی
 
زندگی ذرات میں ٹھہرا ہوا اسلوب ہے
باہمی رغبت سے ہستی کل کی کل منسوب ہے
 
رونقِ الفاظ سے ہے روشنی قرطاس پر
ہر عبارت ہو رہی ہے زندگی کی ہم سفر
 
لفظ ہیں بینائی سے محروم جس قرطاس پر
ہے وہی تعویزِ گردن روشنی کی آس پر
 
لفظ ہیں تاریک ان کی رونمائی کے لئے
آخری قطرہ ہے کافی روشنائی کے لئے
 
روشنائی، آنکھ کے پردے کی بینائی بھی ہے
روح کے سب داخلی رستوں کی زیبائی بھی ہے
 
فکر جوہر، اک اکائی، یا مرا جزوِ بسیط
روشنی کا دائرہ اندر سے باہر تک محیط
 
آنکھ پہ کھلتا ہے جو منظر وہی الہام ہے
آنکھ کا ساغر خدائی روشنی کا جام ہے
 
فکر کے متضاد دھارے جس جگہ ہوں ہمکنار
خوف ان دھاروں کے سنگم پر ہی کرتا ہے شکار
 
خوف شہوت خیز ہونے ہی نہیں دیتا اسے
آنکھ ورنہ ماپتی ہے زاوئے الہام کے
 
خوف سے چشمِ تخیل خانہِ بیکار ہے
بے تخیل فن نہیں ہے، بحرہِ مردار ہے
 
بحرہِ مردار کے پانی کی گہرائی بھی دیکھ
خوف کھاتی آنکھ کے پردے کی بینائی بھی دیکھ
 
نیم شب، خلوت، تفکر اور چشمِ مضطرب
فکر کرتی ہے کشیدہ لذتِ بادۂِ شب
 
پھر شرابِ نیم شب ہے، خلوتِ سقراط ہے
پھر فنائے لافنا کا جام میرے ہاتھ ہے
 
خلوتِ سقراط میں فکر و عمل باہم نصاب
جیسے جوہر کی تہوں میں روشنی کا انجذاب
 
نور کی موجیں توانائی کی پوشاکِ عروس
اور ان موجوں کے جاذب سب کے سب قدسی نفوس
 
اس توانائی میں پوشیدہ ہے نسلوں کا سراغ
اس توانائی سے روشن تر ہوئے مدہم چراغ
 
خلوتِ سقراط میں جوہر کی پیدائش ہوئی
فکر، منطق، فلسفہ، قلب و نظر کی آگہی
 
سنتِ سقراط گرچہ حلقہِ جوہر میں ہے
ذائقہ تیرا بھی جامِ فکر میں، ساغر میں ہے
 
روح کی تاثیر تو ہے، حلقۂِ جوہر بھی تو
فکر کا ناظر بھی تو ہے، فکر کا منظر بھی تو
 
کھول دے اب دل کے دروازے، ہوا مستی میں ہے
تازگی اندر کی رقصاں عالمِ ہستی میں ہے
 
کندنی شبنم ہوا میں تیرتی ہے مطربا
آسماں سورج کی کرنوں میں ڈھلا جاتا ہے کیا؟
 
کندنی ذرات کا دل میں گزر ہونے تو دے
فکر لکھے گی زمانی سلسلوں کے ضابطے
 
مطربا! تاریخ ہر لحظہ ہے افسانہ پذیر
وقت اس پر کھینچتا ہے دیومالائی لکیر
 
عہدِ ماضی سے ہیں لپٹے دیومالا کے خطوط
گویا ہے تابوت میں تاریخ کا پیکر حنوط
 
زندگی ’’موجود‘‘ ہے، ’’موجود‘‘ سے باہر ہے کیا؟
دوری جدول کے زمانوں کا انوکھا سلسلہ
 
ایک عنصر ہوں فقط، ہوں دوری جدول میں پھنسا
چار جانب ہے عناصر کا زمانی سلسلہ
 
اپنے ہونے کی وجہ سے خانماں برباد ہوں
دوری جدول کی زمانی قید میں آباد ہوں
 
دوری جدول کی زمانی قید پیدائش بھی ہے
فکر کے نطفے کی ذرخیزی کی پیمائش بھی ہے
 
سب زمانے وقت کے جدول میں ہیں ترتیب وار
خانہ بہ خانہ تمدن ہے سلجھ کر آشکار
 
دورِ آخر، تابکاری، کاملیت کا سراغ
جوہری مرکز میں روشن تر ہیں یذدانی چراغ
 
قوتِ تخلیق کے الطاف تب ہیں مطربا
ہاتھ جب آدم کا ہو کل وقت پر پھیلا ہوا
 
انتظامِ وقت کی قدرت کا حاصل تو بھی ہے
کارِ ہستی میں ’’تنوع خیز‘‘ شامل تو بھی ہے
 
وقت ہی جوہر ہے اس جوہر کا مرکز آج ہے
وقت کی تنظیم سازی جوہری معراج ہے
 
وحیداخترواحد

Yishun Street 61, Singapore.
***************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 335