* اُجلے بدن کی سخت تپش ، دوپہر کی دھو *
غزل
اُجلے بدن کی سخت تپش ، دوپہر کی دھوپ
ہم تھے کہ جھیلتے رہے اب تک سفر کی دھوپ
گزرے گا ہجرتوں کو یہ موسم بھی ایک روز
راس آئے گی کبھی تو مجھے اپنے گھر کی دھوپ
یہ چلچلاتی دھوپ بھلا سوچتی ہے کیا
کوئی بھی دھوپ رہتی نہیں عمر بھر کی دھوپ
سایہ فگن ہے سر پہ مرے زعفرانِ شام
جھلسائے گی بھلا مجھے کیا دوپہر کی دھوپ
سیالِ آتشیں کی ضرورت نہیں مجھے
اتری ہوئی ہے جام میں اُس کی نظر کی دھوپ
تشنہ لبی کا حال نہ اب مجھ سے پوچھئے
پیاسی تھی رات پی گئی شام و سحر کی دھوپ
منظرؔ نہ دیکھئے اُسے کمتر نگاہ سے
منزل نشاں بنے گی یہی در بہ در کی دھوپ
وقیع منظر
Shahjahan Manzil, 156, N.R.R.Road
Asansol-713302
Mob: 9332295160
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|