* ہیئتِ گل تو بے معانی ہے *
غزل
ہیئتِ گل تو بے معانی ہے
رنگ و خوشبو کی سب کہانی ہے
نائو کا فرش ہے مرا مسکن
اور سمندر کی پاسبانی ہے
ذات کی ٹوٹ پھوٹ کا منظر
رشکِ آفات ناگہانی ہے
راہ صحرا کی منتخب کرنا
یہ ارادہ تو امتحانی ہے
تا بہ شب سب چراغ جلتے ہیں
یہ نظارا تو آسمانی ہے
ایک قطرہ ہے یہ ندامت کا
تا بہ حدِ نظر جو پانی ہے
حرفِ دشنام کو سجا رکھوں
یہ تری آخری نشانی ہے
یاسمین حمیدؔ
Lahore, (Pakistan)
بشکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
…………………………
|