* کھلے مجھ پر تری آنکھوں کے در آہستہ *
غزل
کھلے مجھ پر تری آنکھوں کے در آہستہ آہستہ
کیا ہے جذبۂ دل نے اثر آہستہ آہستہ
ہوا کے ساتھ ہولیں ساعتیں جو ساتھ گزری تھیں
کٹے گا اب جدائی کا سفر آہستہ آہستہ
اجڑ جانا کسی آباد بستی کا نہیں مشکل
مگر بستے ہیں ویرانوں میں گھر آہستہ آہستہ
اذیت کی مجھے یہ انتہا پہ لاکے چھوڑے گا
ڈبوئے گا مری کشتی بھنور آہستہ آہستہ
بدلتی رُت کے ہاتھوں پھول تو کمہلا گئے سارے
مگر کم ہوگا خوشبو کا اثر آہستہ آہستہ
مرا دل صاف ہے الزام چاہے لاکھ ہوں مجھ پر
کھلے گی یہ حقیقت بھی مگر آہستہ آہستہ
یاسمین حمیدؔ
Lahor, (Pakistan)
بشکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
………………………
|