* سب کو کچھ نہ کچھ ہوس تھی اس کو تھی زر *
یوسف جمال
کہمن
زندگی
منظر:
سب کو کچھ نہ کچھ ہوس تھی اس کو تھی زر کی ہوس
اس ہوس سے وہ ہوا احساسِ کمتر کا شکار
اس کی ہر اک سانس تھی اس کے لئے بارِ گراں
وہ مسرت کے لئے ترسا کیا ہے بار بار
دم بدم شکوہ بہ لب ہوتا رہا رب سے سدا
ہر گھڑی غمگین تھا ہر پل رہا ہے اشکبار
زندگی مایوسیو ں کی دھوپ میں تپتی رہی
ہچکیوں کی تال پہ روتا رہا زار و قطار
کہمن:
زندگی انعام ہے، رب نے دیا انسان کو
اس لئے ہر آن ہی شکرِ خدا کرتے رہو
زندگی قلعہ نشیں ہے اور نہ کٹیا میں قید
آبرو سے بس گزر جائے دعاء کرتے رہو
٭٭٭
|