* خوشبو نہیں گلو ں میں *
خوشبو نہیں گلو ں میں
بارود کی بو ہے!
ان کے رگوں میں رنگ نہیں
میرا لہوہے!
ہے لال کہیں ، پیلا کہیں
زعفران ہے
نیلا، ہرا
سفید کہیں
اور کہیں کالا
میں نے ہر رنگ کو آپس میں لڑا رکھا ہے
اور زبانوں کو ان کی الجھا کر
آگے ہندی کے مراٹھی کو کھڑا رکھا ہے
میں کبھی دل میں درندوں کے ہوا کرتی تھی
آج تو خود کو کبوتر میں چھپا رکھا ہے!
٭٭٭
|