* ہر ایک دل میں یہ رنگِ خیال دیکھتے ہ *
ہر ایک دل میں یہ رنگِ خیال دیکھتے ہیں
کہ ایک دوجے کی پگڑی اچھال دیکھتے ہیں
وہ بے حسی ہے کہ اپنی شناخت بھی کھوکر
نہ کوئی غم ہی نہ کوئی ملال دیکھتے ہیں
پکڑ کے انگلیاں چلنا جنہیں سکھایا تھا
وہ لوگ آج ہماری مجال دیکھتے ہیں
نشہ سوار ہے ڈالر کا علم سے غافل
ترے عروج میں تیرا زوال دیکھتے ہیں
نئی نویلی دلہن مثلِ بیوہ ہند میں ہے
میاں سعودی عرب میں ریال دیکھتے ہیں
ادب کے نام پر خیرات بٹنے والی ہے
ٹپک رہی ہے جو ہر منہ سے رال دیکھتے ہیں
تھرک رہے ہیں وہ بوڑھے ہو ں یا کہ بچے ہوں
گھروں میں ٹی وی کا کیا کیا کمال دیکھتے ہیں
جو قدریں جاں سے زیادہ عزیز ہونی تھیں
قدم قدم پہ انہیں پائے مال دیکھتے ہیں
اٹھا رہے ہیں جو انگلی ہمارے ماضی پر
بتائے وہ کبھی اپنا حال دیکھتے ہیں
میاں ظفر بھی عجب شئے ہیں اس زمانے میں
معاملے میں حرام و حلال دیکھتے ہیں
٭٭٭
|