* جوشور کرتے رہے شور ہی میں ڈوب گئے *
غزل
٭………ظہیر غازیپوری
جوشور کرتے رہے شور ہی میں ڈوب گئے
سب اپنے ذوقِ جنوں کی ندی میں ڈوب گئے
عجیب سانحہ گذرا ہے نکتہ دانوں پر
جس آگہی سے وہ اُبھرے اسی میں ڈوب گئے
رفیق بنب کے جب آیا نیا خیال کوئی
خوشی کچھ اتنی ملی ہم خوشی میں ڈوب گئے
کسی طرف سے بھی کوئی صدا نہیں آئی
پرندے شام ہی سے خامشی میں ڈوب گئے
اب اپنے ظرف کے تابوت پرہیں نوحہ کناں
جو لوگ اپنی ہی خوش آگہی میں ڈوب گئے
***** |