* مرے خیال کا پیکر پکارتا ہے مجھے *
غزل
مرے خیال کا پیکر پکارتا ہے مجھے
بلندیوں پہ مقدر پکارتا ہے مجھے
بجھانے کے لئے تشنہ لبی کے انگارے
کبھی کبھی تو سمندر پکارتا ہے مجھے
اُسے بتادو ہے دل میرا آئینے کی طرح
جو لے کے ہاتھ میں پتھر پکارتا ہے مجھے
تلاشِ رزق میں پردیس آگیا لیکن
جہاں ہے ماں مری وہ گھر پکارتا ہے مجھے
نہ جانے کتنی ہی خوش فہمیوں کا ہے وہ شکار
وہ اپنی حد سے بھی بڑھ کر پکارتا ہے مجھے
وہ جس کی دید کی حسرت تھی دل میں برسوں سے
مرے حبیب کا وہ در پکارتا ہے مجھے
میں خاک ہوں مری اوقات کچھ نہیں زاہد
زمانہ ہے کہ سخن ور پکارتا ہے مجھے
زاہد رضا
14, P.M.Basti, 4th bylane, Shibpur
Howrah-711102
Mob: 9903309430
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|