* لگتا ہے کسی خواب کے منظر سے اڑی ہے *
لگتا ہے کسی خواب کے منظر سے اڑی ہے
تتلی، جو ابھی میرے برابر سے اڑی ہے
سورج نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا ہے
جو دھوپ مری چھاؤں کی چادر سے اڑی ہے
خود میں بھی پریشاں ہوں پشیمانئ شب سے
کس نیند کی خوشبو مرے بستر سے اڑی ہے
آنکھوں ميں اتر آئ تو تکلیف تو دے گی
جو گرد _رہ _ غم کسی ٹھوکر سے اڑی ہے
پھرتے ہیں يہ سب لوگ جسے سر پہ اٹھاۓ
وہ خاک مرے جسم کے پتھر سے اڑی ہے
پھرتے ہیں یہ سب لوگ جو آنکھوں سے لگاۓ
وہ خاک مرے جسم کے پتھر سے اڑی ہے
آ، حسن _ محبت تری تصویر میں بھر دوں
جو قوس _ قزح آنکھ کے منظر سے اڑی ہے
کشکول _ شب _ غم سے گلہ کیسے کروں ميں
" آنکھوں سے نہيں، نیند مقدّر سے اڑی ہے"۔
مجھ سے مری پرواز کی وسعت کا نہ پوچھو
افلاک کی دوری مرے شہپر سے اڑی ہے
ہر چیز ہی گردش ميں نظر آتی ہے ذاکر
خاکستر _ دنیا کسی منتر سے اڑی ہے
ذاکر حسین ضیائ
|