* ہماوی آنکھ ميں اب تک ہے مثل _ نم ترا غ *
ہماوی آنکھ ميں اب تک ہے مثل _ نم ترا غم
حسین ہو نہيں سکتا کبھی یہ کم ، ترا غم
نڈھال کرتے ہیں لوگوں کو جانے کیا کیا دکھ
ہميں تو رکھتا ہے ہر دم یہ تازہ دم ترا غم
ہماری روح میں شامل ہے کربلا ترا دکھ
ہمارے ساتھ رہے گا قدم قدم ترا غم
یہی ہے اپنا تفاخر ، اسی میں اپنی نجات
ہماری بعد کی نسلوں ميں ہو گا ضم ترا غم
پہی دعا ہے کہ اٹّھوں جو روز _ محشر تو
مری زبان سے نکلے صدا کہ غم ترا غم
بیاض _ شعر مکمل نہ لفظ کی حرمت
سلام لکھنے سے پہلے تھا اے قلم ترا غم
خدا کا شکر ہے شاہد نبیۖ کا صدقہ ہے
بھلا نہ پاۓ کسی طور سے بھی ہم ترا غم
(لالہ شاہد زمان ۔ ۔ ۔ کوہاٹ سے)
****************** |