* شہر میں رسم ہے راضی بہ رضا ہونے کی *
شہر میں رسم ہے راضی بہ رضا ہونے کی
اب نہیں میری دعا میری دعا ہونے کی
اک ہوا چھوڑ گئ جسم سے باہر کر کے
ورنہ خواہش تھی بھلا کس کو فنا ہونے کی
اک محبت کے لیۓجھوٹ کہاں تک بولوں
اب کوئ اور نہیں مجھ سے خطا ہونے نہیں
طاق سے لو نکل آئ تو بھڑکتا کیوں ہے ؟
تجھ کو خواہش تھی ہواؤں میں دیا ہونے کی
جس محبت سے مجھے قید کیا ہے تونے
اب یہ زنجیر نہيں مجھ سے جدا ہونے کی
میں زمیں چھوڑ کے افلاک تلک آیا ہوں
اب کوئ خاک نہيں میری قبا ہونے کی
تم تو پتھر ہو محبت کو سمجتے ہی نہيں
کیاضرورت ہے مجھے تم سے خفا ہونے کی
اب جو پرواز بھی کرتے ہیں تو پر ٹوٹتے ہیں
کتنی جلدی تھی پرندوں کو رہا ہونے کی
ذاکر حسین ضیائ
|