* یوں ہی تو نہیں دہر میں شاداب مرے خو *
یوں ہی تو نہیں دہر میں شاداب مرے خواب
ہیں حسن کے مانند ازل تاب مرے خواب
یہ بحر _ تحّیر جو مجھے کھینچ رہا ہے
ہو جائيں نہ اس میں کہیں غرقاب مرے خواب
کچھ اس لۓ تعبیر بھی ہے ان کی جدا سی
ہیں اوروں کے خوابوں سے جدا خواب مرے خواب
اب آنکھوں ميں جز اشک _ غمی کچھ بھی نہیں ہے
یوں آ کے چرا لے گیا مہ تاب مرے خواب
ميں دشت _ محبت میں پریشان کھڑا ہوں
ہر سمت نظر آتے ہیں بے آب مرے خواب
اس عشق کے آزار کا تریاق نہیں ہے
ہوجائيں نہ دل کے لۓ زہراب مرے خواب
اے چارہ گراں ! تم مجھے امیّد دلاؤ
پھر توڑ گۓ ہیں مرے احباب مرے خواب
دریا سے کہو ان کو بھی لے جاۓ بہا کر
رہتے ہیں جو اب تک پس _ سیلاب مرے خواب
( ذاکر حسین ضیائ)
|