* یونہی نہیں ہے یہ چشم _ نظارہ شرمندہ *
یونہی نہیں ہے یہ چشم _ نظارہ شرمندہ
دکھائ دینے لگا ہے ستارہ شرمندہ۔
ذرا سی راکھ جھڑی تھی کنارہء شب سے
اسی کے غم ميں ہے اب دل ہمارا شرمندہ
ہزیمت _ دل _ ناکام ایک بار ہوئ
میں زندگی سے ہوا کب دوبارہ شرمندہ
اٹھا کے ہم اسے پتھر پہ پھینک دیتے ہیں
جس آئينے سے ہوا دل ہمارا شرمندہ
ہم آۓ تھے تو یہ دنیا گلہ گزار لگی
چلے گۓ تو ہوا شہر سارا شرمندہ
حدود _ چشم سے باہر میں کیا نکل گیا ہوں
کہ مجھکو لگنے لگا ہے نظارہ شرمندہ
کسی کی تشنگی جس جس جگہ سے گزری ہے
وہاں وہاں سے ہے پانی کا دھارا شرمندہ
ذاکر حسین ضیائ
|