* جب تک یہ مرا دست _ دعا خیریت سے ہے *
٭٭٭٭٭٭ غزل ٭٭٭٭٭٭
جب تک یہ مرا دست _ دعا خیریت سے ہے
سمجھو تمام شہر _ وفا خیریت سے ہے۔
آگے کے منظروں کا مجھے کچھ پتہ نہيں
اب تک تو میری فکر _ رسا خیریت سے ہے۔
میں اپنے دل کے بجھنے کا افسوس کیا کروں۔
اس تیرگی میں کوئ دیا خیریت سے ہے ؟
ہنگامہ ہاۓ شب سے گزرنے کے باوجود۔
آنکھوں ميں خواب _ چہرہ نما خيریت سے ہے
سر پر اڑان بھرتے پرندوں کو دیکھ کر
پیڑوں سے کہہ رہا ہوں،ہوا خیریت سے ہے
اپنے شکم کی فکر ذرا بھی نہیں مجھے
جب تک مرے خدا کی عطا خیریت سے ہے۔
دل پر کچھ ایسے زخم لگے ہیں کہ بار بار۔
ميں خود سے پوچھتا ہوں ، بتا ! خيریت سے ہے ؟
************************** |